مہاتما گاندھی، مضمون، موہن داس کرم چند گاندھی کی زندگی کا تعارف، ماں، بیوی، بیٹا بیٹی، قاتل کا نام، پیدائش-موت، تحریکوں کی فہرست، Mahatma Gandhi ki Zindagi ka Taruf Biography History in Urdu
جب بھی ہم اپنے ملک ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہاں آزادی کی جدوجہد کی بات ضرور ہوتی ہے اور اس بات پر ضرور بحث ہوتی ہے کہ اس جدوجہد آزادی میں کن مجاہدین نے اپنی قربانیاں پیش کی۔ اس جنگ آزادی میں دو طرح کے مجاہدین تھے۔
پہلا:وہ لوگ جو انگریزوں کے مظالم کا جواب ان جیسا خون بہا کر دینا چاہتے تھے، ان میں نمایاں تھے:چندر شیکھر آزاد، سردار بھگت سنگھ وغیرہ۔
دوسرے:وہ مجاہدین جواس خونی منظر کے بجائے امن کے راستے پر چل کر ملک کو آزادی دلانا چاہتے تھے، ان میں سب سے اہم نام ہے:مہاتما گاندھی کا۔ امن، سچائی اور عدم تشدد کی پیروی کی وجہ سے لوگ انہیں ' مہاتما' کہہ کر مخاطب کرنے لگے۔ آئیے اس مہاتما گاندھی کے بارے میں مزید معلومات پر گفتگو کرتے ہیں۔
مہاتما گاندھی کا مختصرتعارف (Mahatma Gandhi Short Biography in Urdu)
پورا نام
موہن داس کرم چند گاندھی
باپ کا نام
کرم چند گاندھی
ماں کا نام
پُتلی بائی
تاریخ پیدائش
2 اکتوبر 1869
جاۓ پیدائش
گجرات کے پوربندر علاقے میں
قومیت
ہندوستانی
مذہب
ہندو
ذات
گجراتی
تعلیم
بیرسٹر
بیوی کا نام
کستوربائی ماکھن جی کپاڈیہ(کستوربا گاندھی )
بچوں بیٹے بیٹی کا نام
4 بیٹے: ہری لال، منی لال، رام داس، دیوداس
موت
30 جنوری 1948
قاتل کا نام
ناتھورام گوڈسے
مہاتما گاندھی کی پیدائش، ذات، خاندان، بیوی، بیٹا(Mahatma Gandhi Birth, Caste, Family, Wife, Son)
مہاتما گاندھی ہندوستان کی ریاست گجرات کے علاقے پوربندر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شری کرم چند گاندھی پوربندر کے 'دیوان' تھے اور والدہ پوتلی بائی ایک مذہبی خاتون تھیں۔ گاندھی جی کا تعلق گجراتی خاندان سے تھا۔ ان کی بیوی کا نام کستوربا گاندھی تھا۔ مہاتما گاندھی کے 4 بیٹے ہری لال، منی لال، رام داس، دیوداس تھے۔
مہاتما گاندھی کی ابتدائی زندگی (Mahatma Gandhi Early Life (
گاندھی جی کی زندگی میں ان کی ماں کا بہت اثر تھا۔ ان کی شادی 13 سال کی عمر میں ہوئی تھی اور کستوربا اس وقت 14 سال کی تھیں۔ نومبر، 1887 میں، انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور جنوری، 1888 میں، انہوں نے ساملداس کالج، بھاو نگر میں داخلہ لیا اور یہاں سے ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد وہ لندن چلے گئے اور وہاں سے بیرسٹر بن کر واپس آئے۔
مہاتما گاندھی کا جنوبی افریقہ دورہ( South Africa Vsit (
1894 میں، گاندھی جی ایک قانونی تنازعہ کے سلسلے میں جنوبی افریقہ گئے اور وہاں ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف 'نافرمانی کی تحریک' ( Disobedience Movement )شروع کی اور اس کی تکمیل کے بعد ہندوستان واپس آگئے۔
مہاتما گاندھی کی ہندوستان واپسی اور جدوجہد آزادی میں شرکت ( Return to India and Participation in Freedom Struggle)
1916 میں، گاندھی جی جنوبی افریقہ سے ہندوستان واپس آئے اور پھر ملک کی آزادی کے لیے اپنے قدم اٹھانے لگے۔ 1920 میں کانگریس لیڈر بال گنگادھر تلک کی موت کے بعد گاندھی جی کانگریس کے رہنما تھے ۔
1914-1919 کے درمیان ہونے والی پہلی جنگ عظیم میں گاندھی جی نے برطانوی حکومت کو اس شرط پر مکمل تعاون دیا کہ اس کے بعد وہ ہندوستان کو آزاد کر دیں گے۔ لیکن جب انگریزوں نے ایسا نہیں کیا تو گاندھی جی نے ملک کی آزادی کے لیے کئی تحریکیں شروع کیں۔ ان میں سے کچھ تحریکیں درج ذیل ہیں:
1920 میں -: عدم تعاون کی تحریک [ Non Co-opration Movement]
1930 میں -: سول نافرمانی کی تحریک ( Civil Disobedience Movement )
1942 میں ہندوستان چھوڑو تحریک ( Quit India Movement )
ویسے گاندھی جی کی پوری زندگی ایک تحریک کی مانند تھی۔ لیکن ان کی طرف سے بنیادی طور پر 5 تحریکیں چلائی گئیں جن میں سے 3 تحریکیں پورے ملک میں چلائی گئیں اور بہت کامیاب رہیں اور اسی وجہ سے لوگ ان کے بارے میں معلومات بھی رکھتے ہیں۔ گاندھی جی کی طرف سے چلائی جانے والی ان تمام تحریکوں کو ہم درج ذیل طریقے سے درجہ بندی کر سکتے ہیں۔
مہاتما گاندھی تحریک کی فہرست ( Mahatma Gandhi Movement List)
ان تمام تحریکوں کی سال وار تفصیل اس طرح دی جا رہی ہے:
1918 میں: (چمپارن اور کھیڑا ستیہ گرہ)
1918 میں گاندھی جی کے ذریعہ شروع کیا گیا ' چمپارن اور کھیڑا ستیہ گرہ ' ہندوستان میں ان کی تحریکوں کا آغاز تھا اور وہ اس میں کامیاب رہے۔ یہ ستیہ گرہ انگریز زمیندار کے خلاف شروع کیا گیا تھا۔ ہندوستانی کسانوں کو ان انگریز جاگیردار نیل پیدا کرنے پر مجبور کررہے تھے اور اس حد تک کہ وہ اس نیل کو صرف ایک مقررہ قیمت پر بیچنے پر مجبور کررہے تھے اور ہندوستانی کسان ایسا نہیں چاہتے تھے۔ پھر اس نے مہاتما گاندھی کی مدد لی۔ اس پر گاندھی جی نے عدم تشدد کی تحریک شروع کی اور اس میں کامیاب رہے اور انگریزوں کو ان کی بات ماننی پڑی۔
اسی سال کھیڑا نامی گاؤں جو کہ صوبہ گجرات میں واقع ہے سیلاب کی زد میں آ گیا اور وہاں کے کسان برطانوی حکومت کی طرف سے عائد کردہ ٹیکس ادا کرنے سے قاصر رہے۔ پھر انہوں نے اس کے لیے گاندھی جی سے مدد لی اور پھر گاندھی جی نے 'عدم تعاون' نامی ہتھیار استعمال کیا اور کسانوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کے لیے تحریک چلائی ۔ گاندھی جی کو اس تحریک میں عوام کی طرف سے کافی حمایت حاصل ہوئی اور آخر کار مئی 1918 میں برطانوی حکومت کو اپنے ٹیکس سے متعلق قوانین میں کسانوں کو ریلیف کا اعلان کرنا پڑا۔
1919 میں: تحریک خلافت ( Khilafat Movement )
1919 میں گاندھی جی کو احساس ہونے لگا کہ کانگریس کہیں نہ کہیں کمزور ہو رہی ہے، اس لیے انہوں نے کانگریس کے ڈوبتے ہوئے جہاز کو بچانے کی پوری کوشش کی اور ساتھ ہی ہندو مسلم اتحاد کے ذریعے برطانوی حکومت کو بھگانے کی کوشش شروع کی۔ ان مقاصد کی تکمیل کے لیے وہ مسلم کمیونٹی کے پاس گئے۔ تحریک خلافت عالمی سطح پر شروع کی گئی ایک تحریک تھی جو مسلمانوں کے خلیفہ [خلیفہ] کے خلاف شروع کی گئی تھی۔ مہاتما گاندھی نے پوری قوم کے مسلمانوں کی ایک کانفرنس [آل انڈیا مسلم کانفرنس] منعقد کی تھی اور وہ خود بھی اس کانفرنس کے مرکزی شخص تھے۔ اس تحریک نے مسلمانوں کی بہت حمایت کی اور گاندھی جی کی اس کوشش نے انہیں ایک قومی رہنما [قومی رہنما] بنا دیا اور کانگریس میں بھی ان کا خاص مقام بن گیا۔ لیکن 1922 میں تحریک خلافت بری طرح رک گئی اور اس کے بعد گاندھی جی ساری زندگی خاموش رہے ۔ہندو مسلم اتحاد کے لیے لڑتے رہے لیکن ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فاصلے بڑھتے رہے۔
1920 میں: عدم تعاون کی تحریک (Non Co-opration Movement )
مختلف تحریکوں سے نمٹنے کے لیے برطانوی حکومت نے 1919 میں رولٹ ایکٹ پاس کیا۔ اس دوران گاندھی جی نے کچھ میٹنگیں بھی کیں اور ان میٹنگوں کی طرح دوسری جگہوں پر بھی میٹنگیں منعقد کی گئیں۔ اسی طرح کی ایک میٹنگ پنجاب کے امرتسر کے علاقے جلیانوالہ باغ میں ہوئی تھی اور گاندھی جی نے 1920 میں اس بربریت کے خلاف احتجاج میں عدم تعاون کی تحریک شروع کی تھی جس کے ساتھ اس امن اجلاس کو انگریزوں نے پامال کیا تھا۔ اس تحریک عدم تعاون کا مفہوم یہ تھا کہ ہندوستانی کسی بھی طرح برطانوی حکومت کی مدد نہ کریں۔ لیکن اس میں کسی قسم کا تشدد نہیں ہونا چاہیے۔
تفصیلات
یہ تحریک ستمبر 1920 سے شروع ہو کر فروری 1922 تک جاری رہی۔ گاندھی جی کی طرف سے شروع کی گئی تین بڑی تحریکوں میں سے یہ پہلی تحریک تھی۔ اس تحریک کو شروع کرنے کے پیچھے مہاتما گاندھی کی سوچ یہ تھی کہ برطانوی حکومت ہندوستان میں صرف اس لیے حکومت کر سکتی ہے کہ انھیں ہندوستانی عوام کی حمایت حاصل ہے، اس لیے اگر انھیں یہ حمایت ملنا بند ہو جائے تو برطانوی حکومت کے لیے ہندوستانیوں پر حکومت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ گاندھی جی نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ برطانوی حکومت کے کسی بھی کام میں تعاون نہ کریں، لیکن اس میں کسی قسم کی پرتشدد سرگرمیاں شامل نہ ہوں۔ لوگوں نے گاندھی جی کی باتوں کو سمجھا اور درست بھی پایا۔ ملک گیر سطح پر لوگوں نے بڑی تعداد میں اس تحریک میں شمولیت اختیار کی اور برطانوی حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چھوڑ دیا۔ اس کے لیے لوگوں نے اپنی سرکاری نوکریاں، کارخانے، دفاتر وغیرہ چھوڑ دیے۔ لوگوں نے اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں اور کالجوں سے نکالا۔ یعنی ہر ممکن کوشش کی گئی کہ انگریزوں کو کسی قسم کی مدد نہ ملے۔ لیکن اس کی وجہ سے بہت سے لوگ غربت اور ناخواندگی کی حالت کو پہنچ چکے تھے لیکن پھر بھی لوگ اپنے ملک کی آزادی کے لیے یہ سب کچھ برداشت کرتے رہے۔ اس وقت ایسا ماحول تھا کہ شاید تب ہی ہمیں آزادی مل جاتی۔ لیکن تحریک کے عروج پر گاندھی جی اس تحریک کو ختم کرنے کا فیصلہ اس واقعے کی وجہ سے کیا گیا جو 'چورا چوری' نامی جگہ پر پیش آیا تھا
چورا چوری کا واقعہ ( Chaura Chauri Incident)
چونکہ یہ تحریک عدم تعاون پورے ملک میں عدم تشدد کے ساتھ چلائی جا رہی تھی، اس دوران کچھ لوگ ریاست اتر پردیش میں چورا چوری نامی جگہ پر ایک پرامن ریلی نکال رہے تھے، تب انگریز فوجیوں نے فائرنگ کر دی۔ ان پر اور کچھ لوگوں کو مار ڈالا کہ اس میں موت بھی واقع ہو گئی۔ اس کے بعد اس مشتعل ہجوم نے تھانے کو آگ لگا دی اور وہاں موجود 22 فوجیوں کو بھی مار ڈالا۔ پھر گاندھی جی نے کہا کہ "ہمیں پوری تحریک کے دوران کوئی پرتشدد سرگرمی نہیں کرنی پڑی، شاید ہم ابھی آزادی حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں" اور اس پرتشدد سرگرمی کی وجہ سے انہوں نے تحریک واپس لے لی۔
1930 میں: نافرمانی کی تحریک / نمک ستیہ گرہ تحریک / ڈانڈی مارچ ( Disobedience Movement / Salt Satyagrah Movement / Dandi March)
1930 میں مہاتما گاندھی نے انگریزوں کے خلاف ایک اور تحریک شروع کی۔ اس تحریک کا نام تھا -: سول نافرمانی کی تحریک ۔(Civil Disobedience Movement (تحریک کا مقصد برطانوی حکومت کی طرف سے جو بھی قواعد و ضوابط بنائے گئے تھے ان کی اطاعت اور ان سے چشم پوشی کرنا نہیں تھا۔ جیسے -: برطانوی حکومت نے ایک قانون بنایا تھا کہ کوئی بھی نمک نہ بنائے، چنانچہ اس قانون کو توڑنے کے لیے اس نے 12 مارچ 1930 کو اپنی 'دانڈی یاترا' شروع کی۔ انہوں نے ڈانڈی نامی جگہ پہنچ کر وہاں نمک پاشی کی اور اس طرح یہ تحریک بھی پرامن طریقے سے چلائی گئی۔ اس دوران برطانوی حکومت نے بہت سے لیڈروں اور لیڈروں کو گرفتار کر لیا۔
تفصیلات
نمک ستیہ گرہ گاندھی جی نے 12 مارچ 1930 کو گجرات کے احمد آباد شہر کے قریب سابرمتی آشرم سے شروع کیا تھا اور یہ سفر 5 اپریل 1930 تک گجرات میں واقع ڈانڈی نامی جگہ تک جاری رہا۔ یہاں پہنچ کر گاندھی جی نے نمک پاشی کی اور اس قانون کو توڑا اور اس طرح ملک گیر سول نافرمانی کی تحریک شروع ہوئی۔ یہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کا ایک اہم مرحلہ تھا۔ یہ برطانوی حکومت کی نمک بنانے کی اجارہ داری پر براہ راست حملہ تھا اور اس واقعے کے بعد یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی۔ اسی وقت یعنی 26 جنوری 1930 کو انڈین نیشنل کانگریس نے 'پورنا سوراج' کا اعلان بھی اعلان کیا تھا. مہاتما گاندھی نے 24 دنوں میں ڈانڈی مارچ مکمل کیا اور اس دوران انہوں نے سابرمتی سے ڈانڈی تک تقریباً 240 میل [390 کلومیٹر] کا فاصلہ طے کیا۔ یہاں اس نے بغیر کوئی ٹیکس ادا کیے نمک بنایا۔ اس سفر کے آغاز میں ان کے ساتھ 78 رضاکار [Volunteers] تھے اور سفر کے اختتام تک یہ تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ وہ 5 اپریل 1930 کو یہاں پہنچے اور یہاں پہنچنے کے بعد اسی دن صبح 6.30 بجے انہوں نے نمک پاشی کرکے برطانوی حکومت کے خلاف عدم تشدد کی سول نافرمانی کی تحریک شروع کی اور ہزاروں ہندوستانیوں نے مل کر اسے کامیاب بنایا۔
مہاتما گاندھی نے یہاں نمک بنا کر اپنا سفر جاری رکھا اور یہاں سے وہ جنوب کی طرف ساحلوں کی طرف بڑھے۔ اس کے پیچھے ان کا مقصد نہ صرف ان ساحلوں پر نمک پاشی کرنا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ کئی جلسوں سے خطاب کرنے کا کام بھی کر رہے تھے۔ یہاں اس نے دھراسنا نامی جگہ پر بھی اس قانون کو توڑا۔ گاندھی جی کو 4-5 مئی 1930 کو آدھی رات کو گرفتار کیا گیا۔ ان کی گرفتاری اور اس ستیہ گرہ نے پوری دنیا کی توجہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی طرف مبذول کرائی۔ یہ ستیہ گرہ پورے ایک سال تک جاری رہا اور گاندھی جی کی جیل سے رہائی کے ساتھ ہی ختم ہوا اور وہ بھی اس لیے کہ وائسرائے لارڈ ارون دوسری گول میز کانفرنس کے وقت مذاکرات کے لیے راضی ہو گئے۔ اس سالٹ ستیہ گرہ کی وجہ سے تقریباً 80,000 لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔
گاندھی جی کی طرف سے چلایا جانے والا یہ نمک ستیہ گرہ ان کے ' غیر متشدد احتجاج ' کے اصول پر مبنی تھا ۔ اس کے لغوی معنی ہیں – سچائی پر اصرار: सत्याग्रह۔ کانگریس نے ہندوستان کی آزادی کے لیے ستیہ گرہ کو اپنا ہتھیار بنایا اور گاندھی جی کو اس کا سربراہ مقرر کیا۔ اس کے تحت دھرسانہ میں جو ستیہ گرہ ہوا، برطانوی فوجیوں نے ہزاروں لوگوں کو مار ڈالا، لیکن بالآخر گاندھی جی کی ستیہ گرہ پالیسی کارگر ثابت ہوئی اور برطانوی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ اس ستیہ گرہ نے امریکی کارکنوں مارٹن لوتھر، جیمز بیول وغیرہ پر گہرا اثر ڈالا، جو 1960 کی دہائی میں نسلی امتیاز [سیاہ فام اور سفید فام لوگوں کے درمیان امتیاز] اور اقلیتوں [اقلیت] کے حقوق کے لیے لڑ رہے تھے۔ یہ ستیہ گرہ اور نافرمانی کی تحریک جس طرح پھیل رہی تھی، اسے صحیح رہنمائی کے لیے مدراس میں راجگوپالاچاری اور شمالی ہندوستان میں خان عبدالغفار خان کے حوالے کر دیا گیا۔
1942: ہندوستان چھوڑو تحریک ( Quit India Movement (
1940 کی دہائی تک، ملک کے بچے، بوڑھے اور نوجوان ہندوستان کی آزادی کے لیے جوش اور غصے سے بھرے ہوئے تھے۔ پھر گاندھی جی نے اسے صحیح سمت میں استعمال کیا اور 1942 میں ہندوستان چھوڑو تحریک بہت بڑے پیمانے پر شروع کی۔ یہ تحریک آج تک کی تمام تحریکوں میں سب سے زیادہ موثر تھی۔ برطانوی حکومت کے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔
تفصیلات
1942 میں مہاتما گاندھی کی طرف سے شروع کی گئی تیسری بڑی تحریک تھی -: ہندوستان چھوڑو تحریک۔ اس کی شروعات مہاتما گاندھی نے اگست 1942 میں کی تھی۔ لیکن اس کے آپریشن میں ہونے والی غلطیوں کی وجہ سے یہ تحریک جلد ہی دم توڑ گئی، یعنی یہ تحریک کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کی ناکامی کے پیچھے بہت سی وجوہات تھیں، جیسے-: اس تحریک میں طلبہ، کسان وغیرہ حصہ لے رہے تھے اور ان میں اس تحریک کو لے کر ایک بڑی لہر دوڑ گئی تھی اور یہ تحریک پورے ملک میں بیک وقت شروع نہیں ہوئی تھی، یعنی اس تحریک کے شروع ہونے کی وجہ سے اس کا اثر ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے ہندوستانیوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ یہ جدوجہد آزادی کی چوٹی ہے اور اب ہمیں آزادی ملے گی اور ان کی سوچ نے تحریک کو کمزور کیا۔ لیکن اس تحریک سے ایک اچھی بات ہوئی کہ انگریز حکمران سمجھ گئے کہ اب ہندوستان میں ان کا راج نہیں چل سکتا، انہیں آج نہیں تو کل ہندوستان چھوڑنا پڑے گا۔
اس طرح گاندھی جی کی زندگی میں چلائی گئی تمام تحریکوں نے ہمارے ملک کی آزادی کے لیے اپنا تعاون دیا اور گہرے اثرات چھوڑے۔
مہاتما گاندھی کی تحریکوں کی اہم خصوصیات
مہاتما گاندھی نے جتنی بھی تحریکیں چلائیں، ان سب میں کچھ چیزیں مشترک تھیں، جن کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
- یہ تحریکیں ہمیشہ پرامن طریقے سے چلائی گئیں۔
- اگر تحریک کے دوران کسی قسم کی پرتشدد سرگرمی ہوئی تو وہ تحریک گاندھی جی نے منسوخ کردی۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ ہمیں آزادی تھوڑی دیر سے ملی۔
- تحریکیں ہمیشہ سچائی اور عدم تشدد کی بنیاد پر چلائی گئیں۔
مہاتما گاندھی کی سماجی زندگی(Social Life of Mahatma Gandhi)
گاندھی جی نہ صرف ایک عظیم رہنما تھے بلکہ اپنی سماجی زندگی میں بھی وہ ان لوگوں میں سے تھے جو 'سادہ زندگی اعلیٰ سوچ' پر یقین رکھتے تھے۔ ان کی طبیعت کی وجہ سے لوگ انہیں 'مہاتما' کہہ کر مخاطب کرنے لگے۔ گاندھی جی جمہوریت کے بہت بڑے حامی تھے۔ اس کے پاس 2 ہتھیار تھے -: 'سچائی اور عدم تشدد'۔ ان ہتھیاروں کے زور پر اس نے ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرایا۔ گاندھی جی کی شخصیت ایسی تھی کہ جو بھی ان سے ملتا وہ ان سے متاثر ہوتا تھا۔
اچھوت کا خاتمہ(Abolition of Untouchability(
گاندھی جی نے سماج میں پھیلے اچھوت کے احساس کو دور کرنے کی بہت کوشش کی۔ انہوں نے پسماندہ ذاتوں کو خدا کے نام پر 'ہری جن' کا نام دیا اور اپنی زندگی کے آخر تک ان کی ترقی کے لیے کوشاں رہے۔
مہاتما گاندھی کی موت اور قاتل کا نام(Age and Death of Mahatma Gandhi)
30 جنوری 1948 کو مہاتما گاندھی کو ناتھو رام گوڈسے نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اسے 3 گولیاں ماری گئیں اور ان کے منہ سے نکلے آخری الفاظ یہ تھے: 'ہے رام'۔ ان کی وفات کے بعد دہلی کے راج گھاٹ پر ان کا مقبرہ بنایا گیا۔ 79 سال کی عمر میں مہاتما گاندھی تمام ہم وطنوں کو الوداع کہہ کر چلے گئے۔
مہاتما گاندھی کی کتابیں (Mahatma Gandhi Books)
हिन्द स्वराज – 1909 میں
दक्षिण अफ्रीका में सत्याग्र– 1924 میں
मेरे सपनों का भारत
ग्राम स्वराज
‘सत्य के साथ मेरे प्रयोग’ ایک خود نوشت
रचनात्मक कार्यक्रम – इसका अर्थ और स्थान
اسی طرح اور دیگر کتابیں مہاتما گاندھی نے لکھی تھیں۔
گاندھی جی کے بارے میں کچھ دلچسپ حقائق )Some interesting Facts about Mahatma Gandhi)
فادر آف نیشن کا خطاب (بابائے قوم کا خطاب)
حکومت ہند نے مہاتما گاندھی کو فادر آف نیشن کا خطاب نہیں دیا لیکن ایک بار سبھاش چندر بوس نے انہیں بابائے قوم کہہ کر مخاطب کیا۔
- گاندھی جی کی موت پر ایک انگریز افسر نے کہا تھا کہ جس گاندھی کو ہم نے اتنے سالوں تک کچھ نہیں ہونے دیا، تاکہ ہندوستان میں ہمارے خلاف ماحول خراب نہ ہو، آزاد ہندوستان اس گاندھی کو ایک دن بھی زندہ نہیں رکھ سکا۔ سال." ہو سکتا ہے."
- گاندھی جی نے سودیشی تحریک بھی شروع کی تھی، جس میں انہوں نے تمام لوگوں سے غیر ملکی اشیاء کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا اور پھر وہ خود چرخہ چلاتے تھے اور دیسی کپڑوں وغیرہ کے لیے کپڑا بناتے تھے۔
- گاندھی جی نے ملک اور بیرون ملک کچھ آشرم بھی قائم کیے جن میں ٹالسٹائی آشرم اور ہندوستان کا سابرمتی آشرم بہت مشہور ہوئے۔
- گاندھی جی روحانی تزکیہ کے لیے بہت مشکل روزے بھی رکھتے تھے۔
- گاندھی جی نے زندگی بھر ہندو مسلم اتحاد کی کوشش کی۔
- 2 اکتوبر کو گاندھی جی کے یوم پیدائش پر پورے ہندوستان میں گاندھی جینتی منائی جاتی ہے۔
اس طرح گاندھی جی بہت عظیم انسان تھے۔ گاندھی جی نے اپنی زندگی میں بہت سے اہم کام کیے، ان کی طاقت 'سچائی اور عدم تشدد' تھی اور آج بھی ہم ان کے اصولوں کو اپنا کر سماج میں اہم تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔
FAQ
س: مہاتما گاندھی کب پیدا ہوئے؟
جواب: 2 اکتوبر 1869 کو
س: مہاتما گاندھی کا تعلق کس ذات سے تھا؟
جواب: گجراتی۔
س: مہاتما گاندھی کے روحانی استاد کون تھے؟
جواب: شریمد راج چندر جی
س: مہاتما گاندھی کی بیٹی کا نام کیا تھا؟
جواب: شہزادی امرت
سوال: مہاتما گاندھی نے ملک کے لیے کیا کیا؟
جواب: ہندوستان کو آزادی دلانے میں ان کا خاص حصہ تھا۔
سوال: مہاتما گاندھی کہاں پیدا ہوئے تھے؟
جواب: پوربندر، گجرات میں ہوا۔
س: مہاتما گاندھی کی موت کب ہوئی؟
جواب: 30 جنوری 1948 کو
سوال: مہاتما گاندھی نے کون سی کتاب لکھی تھی؟
جواب: ہند سواراج: 1909 میں
س: مہاتما گاندھی کی خود نوشت کیا ہے؟
جواب: सत्य से संयोग کے عنوان سے خود نوشت مہاتما گاندھی نے لکھی ہے۔
0 تبصرے